Friday 4 July 2014

رویوں کا تعاقب



سالوں پہلے کی بات ہے جب ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول بن گیا۔



لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔


ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔


امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!!


ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔


بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔


ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛ کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔


اور امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔۔۔

اور اسکے بعد۔۔


ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے افعال پر لوگوں کے رد فعل کی پرواہ نہ کرتے ہوں۔


مگر یاد رکھیئے کہ بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔
یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہوں۔
اس طرح تو ہم سب کو دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال ہونا چاہیئے۔۔
اور ہمیشہ اپنے معاملات میں سچے اور کھرے بھی۔۔

صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر، کہیں کوئی ہمارے رویوں کے تعاقب میں تو نہیں؟ اور ہمارے شخصی تصرف کو سب مسلمانوں کی مثال نہ سمجھ بیٹھے۔


یا پھر اسلام کی تصویر ہمارے تصرفات اور رویئے کے مُطابق ذہن میں نہ بٹھا لے
!!!

Benefits of Fasting...

 

 
“O you who believe! Fasting is prescribed for you, as it was prescribed for those before you, so that you may guard (against evil).” (2:183)




http://www.qurantutor.com/blog/major-objectives-of-fasting-in-the-month-of-ramadan/#sthash.UvIb1dSz.dpuf    

 

http://www.qurantutor.com/blog/major-objectives-of-fasting-in-the-month-of-ramadan/#sthash.UvIb1dSz.dpuf

Thursday 27 September 2012

What is Woman?


ایک باپردہ عورت نے فرانس کی ایک سپرمارکیٹ سے خریداری کی اور اس کے بعد وہ عورت پیسوں کی ادائیگی کیلئے لائن میں کھڑی ہو گئی۔ اپنی باری آنے پر وہ چیک آﺅٹ کاﺅنٹرآئی، جہاں اسے رقم ادا کرنا تھی، وہاں اس نے اپنا سامان ایک ایک کر کے کاﺅنٹر پر رکھ دیا۔ چیک آﺅٹ پر کھڑی ایک بے پردہ مسلم لڑکی نے اس خاتون کی چیزیں ایک ایک کر کے اٹھائیں، اور ان کی قیمتوں کا جائزہ لینے لگی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے نقاب والی خاتون گاہک کی طرف ناراضی سے دیکھا اور کہنے لگی! ہمیں اس ملک میں کئی مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل میں ایک مسئلہ تمہارا نقاب ہے۔ ہم یہاں تجارت کرنے کے لئے آئے ہیں نہ کہ اپنا دین اور تاریخ دکھانے کے لئے۔ وہ مسلم عرب عورت جو نام نہاد روشن خیال تھی اپنی بے ہودہ تقریر جھاڑے جا رہی تھی کہ اگر تم اپنے دین پر عمل کرنا چاہتی ہو اور نقاب پہننا ضروری سمجھتی ہو تو اپنے ملک واپس چلی جاﺅ، جہاں جو تمہارا دل چاہے کر سکتی ہو۔ وہاں نقاب پہنو، برقع پہنو، ٹوپی والا برقع پہنو، جو چاہے کرو مگر یہاں رہ کر ہم لوگوں کے لئے مسائل مت پیدا کرو....

نقاب پہننے والی خاتون ایک مسلم عورت کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر دم بخود ہو کر رہ گئی۔ اپنے سامان کو بیگ میں رکھتے ہوئے اس کے ہاتھ رک گئے اور اچانک اس نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا، کاﺅنٹر پر کھڑی لڑکی اس کا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئی کیونکہ نقاب والی لڑکی کے بال سنہری اور آنکھیں نیلی تھیں، اس نے کاﺅنٹر والی سے کہا ”میں فرانسیسی لڑکی ہو نہ کہ عرب مہاجر، یہ میرا ملک ہے، میں مسلمان ہوں.... اسلام میرا دین ہے، یہ نسلی دین نہیں ہے کہ تم اس کی مالک ہو، یہ میرا دین ہے اور میرا اسلام مجھے یہی سبق دیتا ہے جو میں کر رہی ہو۔ تم نسلی مسلمان ہو کر ہمارے یہاں کے غیر مسلموں سے مر عوب ہو، دنیا کی خاطر خوف میں مبتلا ہو، مجھے کسی کا خوف نہیں ہے۔ اس فرانسیسی نو مسلم عورت کے یہ لفظ تو بے پردہ مسلم عورتوں کے منہ پر طمانچہ تھے کہ تم پیدائشی مسلمانوں نے اپنا دین بیچ دیا ہے اور ہم نے تم سے خرید لیا ہے۔

ایک نجی اخبار میں جب میں نے اس نومسلم فرانسیسی لڑکی کے بارے میں پڑھا تو روشن خیال اور اسلام کو بیک ورڈ یعنی پرانا اور فرسودہ نظام کہنے والیوں پر افسوس ہوا جن کی جھولیوں میں جدی پشتی اسلام جیسی نعمت آ گری، انہوں نے اس کی قدر نہ جانی اور حجاب کو فرسودہ روایت کہہ کر اتار پھینکا وہ حجاب جو اس کے لئے ایک حفاظتی قلعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجھے ایک اور مغربی اداکارہ کا واقعہ یاد آیا وہ ساحل سمندر پر نہانے کے لئے گئی اب اسے اپنا لباس اتارنا تھا اور اس لباس میں جو کہ برائے نام ہے نیم برہنہ ہو کر ساحل پر اسے نہانا تھا۔ یکدم اس کے اندر کی عورت جاگی، حیا جو کہ عورت کی فطرت ہے، بیدار ہو گیا، اس کے ہاتھ رک گئے، ایک مسلمان باپردہ عورت کا سراپا اس کی نظروں میں گھوم گیا۔ اس نے اسلام کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا، کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی۔ حجاب اوڑھنا شروع کر دیا۔ اب اس نو مسلم کا کہنا ہے کہ برقعہ یا چادر عورت کا حفاظتی قلعہ ہے جو اسے شیطان اور برے انسانوں کی پرہوس اور بری نظروں سے محفوظ رکھتا ہے۔

میں ان نومسلم عورتوں کے احساسات اور جذبات کو داد دے رہی تھی کہ یا اللہ تیری یہ فرمانبردار بندیاں، یورپین معاشرے کی پیداوار ہیں، انہوں نے دین اسلام کو سینے سے لگایا تو اس کے ایک ایک حکم کا حق ادا کر دیا۔ پابندی حجاب کے باوجود استقامت اختیار کی، (اللہ ان کی مدد فرمائے، آمین) اور ادھر میری مسلم بہنوں اور بچیوں کا حال دیکھو، ابھی کچھ دن پہلے میں سودا سلف خریدنے کے لئے ایک سپر اسٹور پر گئی، ابھی سامان ٹرالی میں رکھ رہی تھی کہ تنگ پینٹ اور مختصر شرٹ پہنے ہوئی لڑکی میرے سامنے آئی، میک اپ سے چہرہ لتھڑا ہوا، کہنے لگی کہ کون سا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتی ہیں، ابھی میں کچھ بولی نہیں اس نے ہاتھ میں پکڑی ٹوتھ پیسٹ کی تعریفیں شروع کر دیں، میں نے کہا کہ یہ تو میں بعد میں لوں گی پہلے مجھے یہ بتاﺅ کہ کیا تم مسلمان ہو؟ بڑے فخر سے گویا ہوئی: ”جی آنٹی۔“ میں نے کہا :”تم نے جو لباس پہن رکھا ہے کیا وہ ایک مسلم عورت ہونے کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے،“ کہتی ہے: ”نہیں آنٹی یہ تو کمپنی والوں کا لباس ہے، جو مجبوراً پہننا پڑتا ہے۔“ بی اے پاس لڑکی غربت کے ہاتھوں ماری ہوئی ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے اور یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی چیزوں کو متعارف کروانے کے لئے جوان خوبصورت لڑکیو ں کو تھوڑی تھوڑی تنخواہوں پر بڑے بڑے اسٹوروں اور پوش علاقوں میں ڈور ٹو ڈور بھیجتے ہیں اور پھر خدا کی مار لباس بھی کافروں کا چنا ہوا۔ بہرحال! میرے سمجھانے پر مذکورہ لڑکی کی حمیت جاگی اور اس نے وعدہ کیا وہ جلد ہی اس بے ہودہ لباس سے جان چھڑائے گی اور اپنے لئے کوئی معزز راستہ تلاش کرے گی....

حقیقت یہ ہے کہ میں مسلم بیٹی کو کفار کی چالوں کا نشانہ بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں اور کڑھ رہی ہوں کہ دینی تربیت کا فقدان ہے اور میری نوجوان نسل کفار کے بنے ہوئے جال میں پھنستی جا رہی ہے اور نیم برہنہ حالت میں اسٹوروں، چوکوں اور مشہوری کے لئے لگائے گئے پوسٹروں کی زینت بنتی جا رہی ہیں۔ یہی نیم برہنہ پھرنے والیاں جب اللہ کے گھر سے بلاوا آ جائے، حج و عمرہ کی ادائیگی کیلئے جائیں تو اپنے آپ کو سیاہ عبایا میں چھپا لیتی ہیں۔ یہ حکومت سعودیہ کا حکم ہے، کاش! وہ قرآن کا مطالعہ کریں کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا بھی حکم ہے۔ سورئہ الاحزاب میں اللہ فرماتے ہیں: ”اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں (کہ شریف زادیاں ہیں) تو انہیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ بے حد بخشنے والا مہربان ہے“

یاد رہے! اللہ تبارک وتعالیٰ عورت کو سیپ میں بند موتی کی طرح چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ موتی کی خوبصورتی برقرار رہے۔ بری نظروں کے تیروںسے داغدار نہ ہو، لیکن عورت اپنی کم علمی کی وجہ سے دین سے دور ہونے کی بنا پر بے پردگی کرتی ہے اور رب کے حکم کی نافرمانی کرتی ہے۔

میں نے اپنی بہت ساری بہنوں اور بیٹیوں کو دیکھا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کا مذاق اڑاتی ہیں، حج و عمرہ کی ادائیگی کیلئے گئیں، عبایا اور چادر اوڑھ لی، ادائیگی کر کے واپس آئیں تو عبایا اور چادر کو الماری کی زینت بنا دیا، کہ دوبارہ جب اللہ کے گھر جائیں گی تب پہن لیں گی۔ یا پھر جہاں عورتوں کا دینی درس ہوتا ہے، وہاں باجی بے پردہ جانے کی وجہ سے شرمندہ کرتی ہیں تو اس لئے پہن لیا۔ خدارا ایسا کرنے والی میری بہنیں ذرا اس بات پر غور کریں کہ کیا وہ سعودی حکومت سے ڈرتی ہیں یا درس والی باجی سے؟ اگر اللہ کا حکم مان کر کرتی ہیں تو اللہ کا حکم تو ہر جگہ ہے اور وقت ہے۔ اپنے رب کو راضی کرنا مقصود ہے رمضان المبارک شروع ہو گیا رحمتوں، برکتوں، سعادتوں اور مغفرتوں کا مہینہ سایہ فگن ہو گیا۔ گیارہ مہینوں کے چڑھے ہوئے دلوں پر زنگ کو اس ماہ مغفرت میں دور کر لیں، جوکمیاں کوتاہیاں اور نافرمانیاں ہو گئیں ان کی معافیاں مانگ لیں، جس طرح اپنے آپ کو ڈھانپ کر حرمین جاتی ہیں اسی طرح عام جگہوں پر اپنے آپ کو چھپا کر جائیں اپنا ظاہر و باطن ایک جیسا کر لیں۔ صحابیات کو رول ماڈل بنائیں اور ان یورپ کی نو مسلم عورتوں کے کردار دیکھیں جنہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور مسلمان عورت بن کر دکھایا۔ اللہ صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین

Allah ki Mohabbat

Allah ki Mohabbat

Friday 4 May 2012

Help Others...


ایک مرتبہ ایک بہت ہی گناہ گار، اپنے زمانے کا مانا ہوا فاسق و فاجر شخص ایک جنگل کے قریب جا رہا تھا کہ اس نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے سامنے زمین میں ایک سوکھی ٹہنی دباے بیٹھا تھا اور الله کی عبادت کر رہا تھا، اس گناہ گار آدمی نے پوچھا تم کیا کر رہے ہو؟
اس نیک اور پرہیز گار بندے نے بتایا میں سالوں سے دنیا سے دور اس ویرانے میں الله کی عبادت کر رہا ہوں، جس دن میری عبادت قبول ہوگی اس دن یہ ٹہنی ہری ہو جاے گی اسطرح مجھے پتا چل جاے گا. اس گناہ گار کے دل میں جانے کیا آئی وہ بھی زمین میں ایک سوکھی ٹہنی دبا کر بیٹھ گیا اور عبادت کرنے لگا.
تھوڑی دیر بعد کہیں سے ایک آدمی کی مدد کی پکار آئی اور پکارنے والے نے نقاہت بھری آواز میں پانی مانگا.
دونوں نے سنی ان سنی کر دی، آواز دوبارہ آئی، تین چار مرتبہ کی پکار کے بعد گناہ گار نے نیک شخص سے کہا میں تو ابھی بیٹھا ہوں، تمہیں کتنا عرصہ ہوگیا ہے تم ذرا اٹھ کر اسے پانی تو پلا دو، میں ابھی ابھی بیٹھا ہوں اٹھنا نہیں چاہتا.
اس نیک بندے نے گناہ گار کو ڈانٹ کر کہا میری عبادت میں خلل نہ ڈالو میری ارتکاز ٹوٹ جاتا ہے.
جب مدد کی پکار مسلسل آتی رہی تو گناہ گار سے رہا نہ گیا، اس نے اپنی جگہ چھوڑی اور پانی پلانے چلا گیا، جب تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس نے دیکھا اس کی ٹہنی ہری ہو چکی تھی، اور اس نیک بندے کی ٹہنی ویسی کی ویسی ہی تھی.

اگر آپ کسی کی مدد کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں تو پھر سوچئے مت، نجانے ہمارا کون سا عمل الله تعالیٰ کو پسند آجاے اور ہماری بخشش کا سبب بن جاے

Wednesday 25 April 2012

Hadith - Hazrat Muhammad SAWW

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم




Do you know about Khana Kaaba?

Do you Know?


کیا آپ جانتے ہیں؟

خانہ کعبہ میں
  • 4000 لاؤڈ سپیکر
  • 3640 پنکھے
  • 21000 بلب
  • 450 الیکٹرانک گڑیاں جو مختلف زبان میں ٹایم بتاتی ہیں، ہر گھڑی کمپیوٹر سے چلتی ہے
  • 9 بڑے مینار جن کی لمبائی 90 میٹر ہے اور ان پر 14 سرچ لاتٹس لگاتی گئی ہیں ہر سرچ لائٹ میں
  • 20 بلب ہیں اور ہر بلب کی پاور 13500واٹ ہے خانہ کعبہ دنیا کے بالکل سینٹر میں بنا ہوا ہے




Inside View of Khana Kaaba

خانہ کعبہ شریف کا اندرونی منظر